میں اپنے کام سے مطمئن نہیں
میں نے انٹر کیا ہے عمر انیس سال ہے۔ والدہ کی پریشانی دیکھتے ہوئے ماموں نے فیکٹری کا سامان دکانوں تک پہنچانے کی ذمہ داری دلوا دی ہے۔ اس طرح کچھ کمیشن اور تنخواہ ہر ماہ مل جاتی ہے۔ میں اپنے کام سے مطمئن نہیں ہوں بس اچھا نہیں لگا کہ یوں ہی ساری زندگی دکانوں دکانوں گھومتے گزر جائے گی؟ (شکیل‘ کراچی)
مشورہ: ایسے بہت سے نوجوان ہیں جو اپنے کام سے مطمئن نہیں۔ اعلیٰ عہدہ حاصل کرنے کی خواہش کسے نہیں ہوتی لیکن سب کچھ وقت کے ساتھ ملتا ہے وہ بھی انسان کوشش اور جدوجہد جاری رکھے تب۔ فی الحال آپ یہ سوچیں کہ آپ کے کام سے گھر کے حالات میں بہتری آرہی ہے اور ساری زندگی یہ کام کرنے کی پابندی نہیں ہے۔ اپنے خیالات کو صحیح سمت دیتے ہوئے یہ فیصلہ کریں کہ کیا کام اچھا کرسکتے ہیں۔ اسی حوالے سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی ہوگی۔ خوداعتماد اور پُرامید لوگ اپنا نصب العین حاصل کرنے کیلئے بہترین صلاحیتوں کو استعمال کرکے کامیابیوں سے ہمکنار ہوجاتے ہیں۔
اپنی مرضی سے شادی
میرے بھائی نے اپنی مرضی سے شادی کرلی ہے۔ نکاح دوست کے گھر ہوا۔ ایک ہفتے بعد ہم لوگوں کو پتہ چلا تو سب سے زیادہ امی کو دکھ ہوا۔ مجھے تو غصہ آیا کہ اس نے ہمارا ذرا سا بھی خیال نہیں کیا۔ والد حیات نہیں۔ یہی گھر کا بڑا تھا۔ اب جب بھی وہ گھر میں آتا ہے میں اسے خوب باتیں سناتی ہوں۔ اس کی بیوی کی تو ابھی تک ہمارے گھر آنے کی ہمت نہیں ہوئی بھائی کے گھر سے جانے کے بعد میں اپنی ماں کے ساتھ تنہا ہوں۔ (افشین۔ لاہور)
مشورہ: حالات کی تبدیلی کو مثبت انداز سے قبول نہ کرنے والے لوگ عام طور پر تنہا ہی رہ جاتے ہیں۔ اپنی زندگی میں خوشی اور سکون لانا چاہتی ہیں‘ غصہ کرنے سے گریز کریں۔ بھائی بڑے ہیں انہیں باتیں سنانا اچھی بات نہیں۔ غصے کا غیرمعمولی حد تک اظہار تو آپ کی اپنی صحت کو متاثر کرنے کا سبب ہوگا۔ اس طرح آپ دوسروں کی غلطیوں کی سزا خود کو دے رہی ہیں۔ اگر بھائی اور بھابی کے ساتھ اخلاق سے پیش آئیں گی تو ان کے دل میں بھی جگہ ہوگی۔
میں بالکل تنہا ہوں
میری والدہ شروع سے تیز مزاج واقع ہوئی ہیں۔ اب نوکرانی سے لڑائی جھگڑا کرنے لگی ہیں۔ بیوی اور بچے تو اپنی نانی کے گھر گئے ہیں۔ ادھر امی نے ملازمہ کو نکال دیا اور خود اپنی بہن کے گھر چلی گئیں۔ میں بالکل تنہا رہ گیا۔ سوچتا ہوں نہ تو ماں کو میرا خیال ہے اور نہ بیوی کو۔ چار سال قبل میں نفسیاتی مریض ہوگیا تھا سسرال میں اب کوئی مجھے اس نام سے پکارے تو بہت غصہ آتا ہے۔ اس لیے وہاں جانا چھوڑ دیا اب مسئلہ یہ ہے کہ تنہائی میں پرانی والی کیفیت ہونے لگتی ہے یعنی رونا آنا‘ زندگی بے مقصد لگنا اور مرنے کو دل چاہتا ہے۔ (شفیق‘ خانیوال)
مشورہ: والدہ تو ضعیف ہوں گی انہوں نے عمر کا بڑا حصہ آپ کی پرورش اور تربیت میں لگا دیا اب ان سے شکایت نہیں ہونی چاہیے۔ ان کے مزاج کی تیزی مریضانہ ہی ہوسکتی ہے اس سلسلے میں اپنے ڈاکٹر سے بھی مشورہ کرنا چاہیے۔ نفسیاتی امراض ایک مرتبہ ٹھیک ہوجائیں تو کچھ عرصے بعد دوبارہ ہوسکتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ آپ اپنی کیفیت کو سمجھ رہے ہیں پہلے جس معالج سے علاج کروایا تھا اب بھی ان سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ بیوی کو بھی بتائیں کہ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں جب ان کے میکے جائیں تو کسی کی بات کی پروا کرنے کی ضرورت نہیں ہے آج کل شاید ہی کوئی ایسا ہو جسے کسی قسم کا نفسیاتی مسئلہ نہ ہو۔
کیا اسے آزاد کردوں؟
میری شادی والدین کی پسند سے ملتان میں اپنے ہی خاندان میںہوئی ہے۔ ہم کراچی میں رہتے ہیں والد صاحب کا گزشتہ سال انتقال ہوگیا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ میری بیوی ہر دو ماہ بعد ملتان چلی جاتی ہے اور پھر کئی کئی مہینے واپس نہیں آتی اگر میں اسے ہر دو ماہ بعد ملتان نہ بھیجوں تو اس کے والدین میری والدہ کی ناصرف ٹیلیفون پر بے عزتی کرتے ہیں بلکہ خاندان بھر میں بھی بدنام کرتے ہیں لہٰذا والدہ ہاتھ جوڑ کر مجھ سے کہتی ہیں کہ بیوی کو ملتان بھیج دو۔ میں مجبوراً اسے بھجوا دیتا ہوں۔ اس کے علاوہ بیوی کا رویہ بھی مجھ سے بالکل بدل گیا ہے وہ میری ذرا بھی پروا نہیں کرتی میری کوئی بات نہیں مانتی۔ اس کے ماں باپ طرح طرح کی پٹیاں پڑھا کر اسے میرے خلاف کردیتے ہیں اس نے شادی کے بعد سے تمام عیدیں وہیں پر کی ہیں میں نے اسے کئی بار سمجھایا بھی میرا اس کے ساتھ رویہ بھی مشفقانہ اور نرم ہے پھر مجھے اپنی بچی کا بھی خیال رہتا ہے اس کی وجہ سے بھی میں اسے کچھ نہیں کہتا مگر اب اس کا رویہ میری برداشت سے باہر ہوتا جارہا ہے.... آپ بتائیں کیا میں اسے ہمیشہ کیلئے آزاد کردوں....؟ (محمد شکیل‘ راولپنڈی)
مشورہ: شادی کے بعد لڑکیوں کو میکے جانے کی خواہش ہوتی ہی ہے اور وہ والدین سے ملنے بار بار اپنے گھر جانا چاہتی ہیں یہ خواہش ایسی بے جا بھی نہیں لیکن آپ کا معاملہ کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا ہے چونکہ آپ کی بیوی آپ کی کوئی بات نہیں مانتی اور نہ ہی وہ گھر سے دلچسپی رکھتی ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ ذہنی طور پر آپ کو قبول نہیں کرسکی ہے اس لیے آپ کو چاہیے کہ اس سلسلے میں آپ اپنے خاندان کے بزرگوں کے سامنے یہ مسئلہ رکھیں تاکہ اگر آپ بیوی کو آزاد کریں تو کم از کم خاندان والوں کو اصل صورتحال کا علم بھی ہو اس کے ساتھ ہی آپ اپنی بیوی اور سسرال والوں کو صاف الفاظ میں کہہ دیجئے کہ اگر وہ لوگ اس رشتے کو برقرار رکھنا نہیں چاہتے تو آپ بھی زبردستی نہیں کرنا چاہتے۔اس کے علاوہ بیگم کے میکے جانے کے بعد آپ بھی سرد مہری کا ثبوت دیجئے اور اسے بار بار فون کرکے واپس آنے کا اصرار نہ کریں۔ دو چار چھ ماہ آخر کب تک وہ میکے میں رہے گی ۔جب وہ میکے میں بیٹھی رہے گی تو خاندان والے خود اس پر باتیں بنانے لگیں گے۔ اس کے ساتھ ہی عین ممکن ہے کہ آپ کی بیگم آپ کے ساتھ رہنا ہی نہیں چاہتی ہو۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ اس سے اور اس کے خاندان والوں سے دو ٹوک بات کرلیجئے تاکہ کوئی ابہام باقی نہ ہو۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 432
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں